مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ‌بیتی

مَیں ہر طرح کے لوگوں کی خاطر سب کچھ بنا

مَیں ہر طرح کے لوگوں کی خاطر سب کچھ بنا

‏”‏اگر تُم بپتسمہ لو گی تو مَیں تمہیں چھوڑ دوں گا!‏“‏ اِس دھمکی کے باوجود میری امی نے بپتسمہ لے لیا اور میرے ابو ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‏ یہ 1941ء کی بات تھی جب مَیں بس آٹھ سال کا تھا۔‏

مجھے اِس واقعے سے پہلے بھی بائبل میں دلچسپی تھی۔‏ میری امی کو بائبل کے متعلق کچھ مطبوعات ملی تھیں جو مجھے اچھی لگیں۔‏ اِن میں مجھے خاص طور پر تصویریں بہت پسند تھیں۔‏ میرے ابو نے امی کو منع کِیا تھا کہ وہ مجھے بائبل کے بارے میں سکھائیں۔‏ لیکن مَیں امی سے بہت سے سوال پوچھتا تھا۔‏ اِس لیے جب ابو گھر پر نہیں ہوتے تھے تو امی مجھے بائبل کے بارے میں سکھاتی تھیں۔‏ اِس کے نتیجے میں مَیں نے یہوواہ خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کِیا اور 1943ء میں اِنگلینڈ کے شہر بلیک‌پُول میں بپتسمہ لیا۔‏ اُس وقت مَیں دس سال کا تھا۔‏

کُل‌وقتی خدمت کا آغاز

امی اور مَیں باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ لیتے تھے۔‏ اُس زمانے میں ہم فونوگراف کے ذریعے خوش‌خبری سناتے تھے جو کہ بہت ہی بھاری تھے۔‏ اِن کا وزن ساڑھے چار کلو (‏10 پونڈ)‏ تھا۔‏ ذرا تصور کریں کہ ایک دس سالہ لڑکے کے لیے اِتنی بھاری مشین اُٹھانا کتنا مشکل تھا!‏

جب مَیں 14 سال کا ہوا تو میرے دل میں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کی خواہش جاگی۔‏ امی نے مجھے حلقے کے نگہبان سے اِس بارے میں بات کرنے کو کہا۔‏ حلقے کے نگہبان نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں پہلے ایک ہنر سیکھوں تاکہ مَیں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرتے وقت اپنے خرچے بھی پورے کر سکوں۔‏ مَیں نے اِس مشورے پر عمل کِیا۔‏ دو سال بعد مَیں نے ایک اَور حلقے کے نگہبان کو بتایا کہ مَیں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏فوراً ایسا کریں۔‏“‏

اپریل 1949ء میں امی اور مَیں نے اپنا سارا فرنیچر بیچ دیا اور مانچسٹر کے نزدیک شہر مڈل‌ٹن میں جا کر پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ اِس کے چار مہینے بعد مَیں نے ایک بھائی کو چُنا تاکہ وہ میرے ساتھ مل کر پہل‌کار کے طور پر خدمت کرے۔‏ برانچ نے ہم دونوں کو شہر اِرلم بھیجا جہاں ابھی ابھی ایک نئی کلیسیا قائم کی گئی تھی۔‏ اِس دوران میری امی ایک پہل‌کار بہن کے ساتھ مل کر کسی اَور کلیسیا میں خدمت کر رہی تھیں۔‏

میری کلیسیا میں بہت کم بھائی تھے جو ذمےداری اُٹھانے کے قابل تھے۔‏ اِس لیے مجھے اور میرے ساتھی کو تمام اِجلاس منعقد کرنے کی ذمےداری دی گئی حالانکہ اُس وقت مَیں صرف 17 سال کا تھا۔‏ کچھ عرصے بعد مَیں شہر بکس‌ٹن کی کلیسیا میں جا کر خدمت کرنے لگا کیونکہ وہاں مبشروں کی کمی تھی۔‏ اُن سالوں میں مَیں نے جو تجربہ حاصل کِیا،‏ یہ بعد میں میرے بہت کام آیا۔‏

سن 1953ء میں ریاست نیو یارک میں ایک عوامی تقریر کا اِعلان کرتے ہوئے

سن 1951ء میں مَیں نے واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کے لیے درخواست ڈالی۔‏ پھر دسمبر 1952ء میں مجھے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے بلایا گیا۔‏ مَیں نے درخواست ڈالی کہ مجھے اِس کام سے بَری کِیا جائے لیکن میری درخواست کو مسترد کر دیا گیا اور مجھے چھ مہینے قید کی سزا دی گئی۔‏ مَیں قید ہی میں تھا جب مجھے گلئیڈ سکول کی 22ویں کلاس میں آنے کی دعوت ملی۔‏ لہٰذا مَیں رِہا ہونے کے بعد جولائی 1953ء میں ایک بحری جہاز پر سوار ہو کر نیو یارک کے لیے روانہ ہو گیا۔‏

جب مَیں نیو یارک پہنچا تو پہلے تو مَیں صوبائی اِجتماع پر گیا۔‏ اِجتماع کے بعد مَیں نے شہر ساؤتھ لانسنگ جانے کے لیے ٹرین پکڑی۔‏ چونکہ مَیں ابھی ابھی قید سے رِہا ہوا تھا اِس لیے میرے پاس بہت کم پیسے تھے۔‏ ٹرین سے اُتر کر مجھے ساؤتھ لانسنگ پہنچنے کے لیے بس کا سفر کرنا تھا لیکن میرے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے اور مجھے ایک ہم‌سفر سے پیسے اُدھار لینے پڑے۔‏

فلپائن میں خدمت

گلئیڈ سکول میں ہمیں سکھایا گیا کہ ہم ”‏ہر طرح کے لوگوں کی خاطر سب کچھ“‏ کیسے بن سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 9:‏22‏)‏ کورس مکمل کرنے کے بعد بھائی پال برون،‏ رِمنڈ لچ اور مجھے فلپائن میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا۔‏ ہم بحری جہاز پر نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم کے لیے روانہ ہو گئے۔‏ وہاں پہنچ کر ہم نے اپنا سفر جاری رکھا اور بحیرۂروم،‏ نہرِسوئز اور بحرِہند سے گزر کر پہلے تو ملائشیا اور پھر ہانگ‌کانگ پہنچے۔‏ آخرکار ہم 19 نومبر 1954ء کو فلپائن کے شہر منیلا پہنچ گئے۔‏ ہم نے بحری جہاز پر کُل 47 دن تک سفر کِیا تھا۔‏

رِمنڈ لچ اور مَیں 47 دن بحری جہاز پر سفر کرنے کے بعد فلپائن پہنچے۔‏

فلپائن میں ہمیں ایک نئے ماحول کے مطابق ڈھلنا پڑا۔‏ یوں تو ہمیں ایک نئی زبان بھی سیکھنی تھی لیکن شروع میں ہمیں کویزون سٹی میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا جہاں بہت سے لوگ انگریزی بولتے تھے۔‏ لہٰذا ہم نے چھ مہینے میں مقامی زبان ٹاگالوگ کے چند ہی لفظ سیکھے۔‏ مگر پھر مجھے ایک ایسی ذمےداری دی گئی جس کی وجہ سے مجھے ٹاگالوگ زبان سیکھنی پڑی۔‏

ہوا یہ کہ مئی 1955ء میں جب ہم ایک دن مُنادی سے گھر لوٹے تو میرے اور بھائی لچ کے نام خط آئے ہوئے تھے جن میں لکھا تھا کہ ہمیں حلقے کے نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔‏ مَیں صرف 22 سال کا تھا لیکن اِس بھاری ذمےداری کو نبھاتے وقت مَیں نے ہر طرح کے لوگوں کی خاطر سب کچھ بننے کے سلسلے میں بہت سی باتیں سیکھیں۔‏

ایک حلقے کے اِجتماع پر بیکول زبان میں عوامی تقریر پیش کرتے وقت

مثال کے طور پر مَیں نے اپنی پہلی عوامی تقریر ایک گاؤں کی دُکان کے سامنے دی۔‏ اُس زمانے میں فلپائن میں عوامی تقریر ہمیشہ کسی عوامی جگہ پر ہی دی جاتی تھی۔‏ لہٰذا حلقے کا دورہ کرتے وقت مَیں نے سرکاری ہالوں کے سامنے،‏ چوکوں پر،‏ بارہ‌دریوں،‏ بازاروں،‏ کھیل کے میدانوں اور پارکوں میں عوامی تقریر پیش کی۔‏ ایک بار مجھے بازار میں تقریر پیش کرنی تھی لیکن تیز بارش کی وجہ سے مَیں ایسا نہیں کر سکا۔‏ مَیں نے بھائیوں سے پوچھا کہ ”‏کیا مَیں کنگڈم ہال میں تقریر دے سکتا ہوں؟‏“‏ وہ اِس پر راضی ہو گئے مگر تقریر کے بعد اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ اِس تقریر کو رپورٹ میں عوامی تقریر کے طور پر ڈال سکتے ہیں؟‏ دراصل اُنہیں لگا کہ یہ عوامی تقریر نہیں تھی کیونکہ یہ عوامی جگہ پر نہیں دی گئی تھی۔‏

دوروں پر مَیں ہمیشہ بہن بھائیوں کے گھروں میں رہتا تھا۔‏ اُن کے گھر سادہ مگر صاف ستھرے ہوتے تھے۔‏ اکثر مَیں لکڑی کے فرش پر ایک چٹائی پر سوتا تھا۔‏ نہانے کے لیے گھروں سے باہر جانا پڑتا تھا جہاں لوگوں کی نظر پڑ سکتی تھی۔‏ اِس لیے مَیں نے شرم‌وحیا کا خیال رکھ کر نہانا سیکھا۔‏ مَیں نے زندگی میں کبھی گاڑی نہیں لی۔‏ مَیں بسوں پر سفر کرتا تھا اور جزیروں پر پہنچنے کے لیے کشتی پر سفر کرتا تھا۔‏

حالانکہ مَیں نے ٹاگالوگ زبان سیکھنے کے لیے کوئی کورس نہیں کِیا لیکن مَیں یہ زبان سیکھ گیا۔‏ مَیں مُنادی کے دوران اور اِجلاسوں پر بہن بھائیوں کی باتوں کو غور سے سنتا تھا۔‏ وہ زبان سیکھنے میں میری مدد کرنا چاہتے تھے اِس لیے وہ میری غلطیوں کو درست کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔‏ مَیں اُن کا بہت شکرگزار ہوں کہ وہ میرے ساتھ اِتنے صبر سے پیش آئے۔‏

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اَور ذمےداریاں دی گئیں جن کی وجہ سے مَیں نے بہت سی نئی باتیں سیکھیں۔‏ 1956ء میں جب بھائی ناتھن نار فلپائن آئے تو ایک بہت بڑا اِجتماع منعقد کِیا گیا جس پر پورے ملک کے بہن بھائی آئے۔‏ مجھے اِس موقعے پر خبررساں اِداروں سے بات‌چیت کرنے کی ذمےداری دی گئی۔‏ مَیں نے پہلے کبھی یہ کام نہیں کِیا تھا لیکن دوسرے بھائیوں کی مدد سے مَیں اِس ذمےداری کو نبھا سکا۔‏ اِس کے تقریباً ایک سال بعد دوبارہ سے ایک بڑا اِجتماع منعقد کِیا گیا جس پر بھائی فریڈرک فرینز مرکزی دفتر سے آئے۔‏ مجھے اِس اِجتماع کا نگہبان مقرر کِیا گیا۔‏ بہن بھائی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ بھائی فرینز نے فلپائن کا مقامی لباس پہن کر عوامی تقریر دی۔‏ اِس سے مَیں نے سیکھا کہ ہمیں مقامی طورطریقوں کو اپنانے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔‏

جب مجھے صوبائی نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا تو مجھے اَور بھی بہت سی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔‏ اُس زمانے میں ہم لوگوں کو ایک فلم دِکھا رہے تھے جس میں یہوواہ کی تنظیم کی برکتوں کے بارے میں بتایا گیا۔‏ یہ فلم عام طور پر کُھلے آسمان کے نیچے دِکھائی جاتی تھی۔‏ مچھر اور پتنگوں کے جھنڈ فلم چلانے والی مشین کی روشنی کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور مشین میں پھنس جاتے تھے۔‏ بعد میں اِس مشین کو صاف کرنا بڑا محنت‌طلب کام ہوتا تھا۔‏ اِس طرح کے اِجلاسوں کو منعقد کرنا آسان نہیں ہوتا تھا لیکن مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی کہ لوگوں کو یہ فلم دیکھ کر یہوواہ کی تنظیم کے بارے میں سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔‏

کچھ علاقوں میں کیتھولک پادریوں نے سرکاری افسروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہمیں اِجتماع منعقد کرنے کی اِجازت نہ دیں۔‏ جب ہم کسی چرچ کے نزدیک تقریر دیتے تھے تو پادری چرچ کی گھنٹیوں کو متواتر بجاتے تھے تاکہ لوگ تقریر نہ سُن سکیں۔‏ لیکن اِس کے باوجود لوگ یہوواہ کے بارے میں سیکھ رہے تھے اور آج اِن علاقوں میں بھی بہت سے یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏

نئی ذمےداریاں

سن 1959ء میں مجھے فلپائن بیت‌ایل میں خدمت کرنے کے لیے بلایا گیا اور مَیں نے وہاں بھی بہت کچھ سیکھا۔‏ کچھ عرصے بعد مجھے یہ شرف ملا کہ مَیں بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لیے دوسرے ملکوں کے دورے کروں۔‏ ایک ایسے موقعے پر مَیں ملک تھائی‌لینڈ گیا جہاں میری ملاقات جینٹ ڈومنڈ سے ہوئی جو وہاں مشنری کے طور پر خدمت کر رہی تھیں۔‏ ہم کچھ عرصے تک ایک دوسرے کو خط لکھتے رہے اور پھر ہم نے شادی کر لی۔‏ اب ہماری شادی کو 51 سال ہو گئے ہیں۔‏

مَیں اور جینٹ،‏ فلپائن کے ایک جزیرے پر

اب تک مَیں نے 33 ملکوں کا دورہ کِیا ہے۔‏ مَیں اِس بات کا بہت شکرگزار ہوں کہ ماضی میں مجھے ایسی ذمےداریاں دی گئیں جن سے مَیں نے مختلف ثقافتوں اور پس‌منظروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھنا سیکھ لیا۔‏ اِن دوروں سے مجھ پر واضح ہو گیا کہ یہوواہ خدا ہر طرح کے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‏—‏اعما 10:‏34،‏ 35‏۔‏

ہم دونوں باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔‏

ہم ابھی بھی سیکھ رہے ہیں

مجھے اور جینٹ کو فلپائن کے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر یہوواہ کی خدمت کرنے سے بہت سی خوشیاں ملی ہیں۔‏ ہم ابھی بھی فلپائن بیت‌ایل میں ہیں۔‏ مجھے اِس ملک میں خدمت کرتے 60 سال ہو گئے ہیں۔‏ اِس دوران یہاں مبشروں کی تعداد میں دس گُنا اِضافہ ہوا ہے۔‏ مجھے احساس ہے کہ مجھے ابھی بھی بہت سی باتیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏ حال ہی میں یہوواہ کی تنظیم نے بہت سی تبدیلیاں کی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں اپنی سوچ اور اپنے معمول کو بدلنا پڑا ہے۔‏ لیکن یہوواہ کی خاطر ہم خوشی سے ایسا کرنے کو تیار ہیں۔‏

ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ فلپائن میں مبشروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‏

ہم دونوں نے ہمیشہ یہوواہ خدا کی ہدایتوں پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ یہی زندگی کی بہترین راہ ہے۔‏ ہم اپنے طورطریقوں میں تبدیلیاں لائے ہیں تاکہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی اچھی طرح سے خدمت کر سکیں۔‏ ہم یہوواہ خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں اِس لیے ہمارا عزم ہے کہ ہم آئندہ بھی ’‏ہر طرح کے لوگوں کی خاطر سب کچھ بنیں گے۔‏‘‏

ہم ابھی بھی فلپائن بیت‌ایل میں خدمت کر رہے ہیں۔‏