مواد فوراً دِکھائیں

پاک کلام میں دہ یکی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

پاک کلام میں دہ یکی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 قدیم اِسرائیلوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ سچی عبادت کی حمایت کرنے کے لیے ہر سال اپنی کمائی میں سے دہ یکی a یعنی کمائی کا دسواں حصہ دیا کریں۔ خدا نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُو اپنے غلّہ میں سے جو سال بسال تیرے کھیتوں میں پیدا ہو دہ یکی دینا۔“‏—‏اِستثنا 14:‏22‏۔

 دہ یکی دینے کا حکم موسیٰ کی شریعت میں تھا جو خدا نے بنی اِسرائیل کو دی تھی۔ مسیحی شریعت کے تحت نہیں ہیں اِس لیے وہ دہ یکی دینے کے بھی پابند نہیں ہیں۔ (‏کُلسّیوں 2:‏13، 14‏)‏ اِس کی بجائے ہر مسیحی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اُتنا عطیہ دے جتنا ”‏اُس نے دل میں طے کِیا ہے اور بے‌دلی یا مجبوری سے نہ دے کیونکہ خدا اُس شخص کو پسند کرتا ہے جو خوش دلی سے دیتا ہے۔“‏—‏2-‏کُرنتھیوں 9:‏7‏۔‏

 دہ یکی کے بارے میں پاک کلام کی تعلیم—‏پُرانے عہدنامے میں

 بائبل کے اُس حصے میں دہ یکی کا ذکر کافی مرتبہ آیا ہے جسے پُرانا عہدنامہ کہا جاتا ہے۔ اِس کا زیادہ تر ذکر بنی اِسرائیل کو دی جانے والی شریعت ملنے کے بعد آتا ہے۔ لیکن اِس شریعت سے پہلے بھی دو مرتبہ دہ یکی کا ذکر ملتا ہے۔‏

موسیٰ کی شریعت سے پہلے

 پاک کلام کے مطابق جس شخص نے سب سے پہلے دہ یکی دی، وہ ابرام (‏ابراہام)‏ تھے۔ (‏پیدایش 14:‏18-‏20؛‏ عبرانیوں 7:‏4‏)‏ ابرام نے سالم کے بادشاہ اور کاہن کو ایک ہی بار دہ یکی دی لیکن بائبل میں اِس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ اِس کے بعد ابراہام کے بچوں نے دوبارہ دہ یکی دی ہو۔‏

 پاک کلام کے مطابق ابراہام کے پوتے یعقوب وہ دوسرے شخص تھے جنہوں نے دہ یکی دی۔ یعقوب نے خدا سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ اُنہیں برکت دے گا تو وہ اُسے ہر اُس چیز کا ”‏دسواں حصہ“‏ دیا کریں گے جو خدا اُنہیں دے گا۔ (‏پیدایش 28:‏20-‏22‏)‏ بائبل کے کچھ عالموں کے مطابق یعقوب نے وہ دہ یکی غالباً جانوروں کی قربانی کی صورت میں دی تھی۔ یعقوب نے اپنے وعدے کے مطابق خود تو دہ یکی دی لیکن اُنہوں نے اپنے خاندان کو دہ یکی دینے کا پابند نہیں کِیا۔‏

موسیٰ کی شریعت کے تحت

 بنی اِسرائیل کو دہ یکی دینے کا حکم اِس لیے دیا گیا تھا تا کہ وہ اپنے مذہبی کاموں کی حمایت کر سکیں۔‏

  •   دہ یکی کُل وقتی طور پر مذہبی کام کرنے والے لاویوں کودی جاتی تھی جن میں کاہن بھی شامل تھے۔ دراصل اُنہیں کاشت کاری کرنے کے لیے کوئی زمین نہیں دی گئی تھی۔ (‏گنتی 18:‏20، 21‏)‏ وہ لاوی جو کاہن نہیں تھے، اُنہیں اپنی قوم کی طرف سے دہ یکی ملتی تھی اور اُنہیں اِس ”‏دہ یکی کی دہ یکی“‏ کا بہترین حصہ کاہنوں کو دینا ہوتا تھا۔—‏گنتی 18:‏26-‏29‏۔‏

  •   ایسا لگتا ہے کہ سال میں ایک اَور دہ یکی دینے کا حکم دیا گیا تھا جس سے لاویوں کو بھی فائدہ ہوتا تھا اور اُن لوگوں کو بھی جو لاوی نہیں تھے۔ (‏اِستثنا 14:‏22، 23‏)‏ بنی اِسرائیل اِس دہ یکی کو مُقدس مجموں کے حوالے سے اِستعمال کرتے تھے اور کچھ خاص سالوں میں اِسے اُن لوگوں کی مدد کرنے کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا جو بہت غریب ہوتے تھے۔—‏اِستثنا 14:‏28، 29؛‏ 26:‏12‏۔‏

 دہ یکی کا حساب کیسے لگایا جاتا تھا؟‏ بنی اِسرائیل اپنی زمین کی سالانہ پیداوار کا دسواں حصہ الگ کرتے تھے۔ (‏احبار 27:‏30‏)‏ اگر وہ اِس دہ یکی کو پیداوار کی بجائے پیسوں کی صورت میں دینے کا فیصلہ کرتے تھے تو اُنہیں اِس میں بیس فیصد اِضافہ کرنا پڑتا تھا یعنی دس کی بجائے بارہ فیصد دینا پڑتا تھا۔ (‏احبار 27:‏31‏)‏ اِس کے علاوہ اُنہیں ”‏گائے بیل اور بھیڑ بکری .‏.‏.‏ کی دہ یکی“‏ دینے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔—‏احبار 27:‏32‏۔‏

 مویشیوں کی دہ یکی کا حساب لگانے کے لیے بنی اِسرائیل بھیڑ خانے میں سے نکلنے والے ہر دسویں جانور کو چُنتے تھے۔ شریعت کے مطابق وہ جس جانور کو چُنتے تھے، نہ تو اُس کا معائنہ کر سکتے تھے،نہ اُسے کسی دوسرے جانور سے بدل سکتے تھے اور نہ ہی اپنے مویشیوں کی دہ یکی کو پیسوں سے بدل سکتے تھے۔ (‏احبار 27:‏32، 33‏)‏ لیکن دوسری دہ یکی کو سالانہ عیدوں پر اِستعمال کرنے کے لیے پیسوں میں بدلا جا سکتا تھا۔اِس بندوبست سے اُن اِسرائیلیوں کو فائدہ ہوتا تھا جنہیں عیدوں پر جانے کے لیے لمبا سفر کرنا پڑتا تھا۔—‏اِستثنا 14:‏25، 26‏۔‏

 بنی اِسرائیل کب دہ یکی دیتے تھے؟‏ بنی اِسرائیل ہر سال دہ یکی دیتے تھے۔ (‏اِستثنا 14:‏22‏)‏ لیکن ہر ساتویں سال وہ دہ یکی نہیں دیتے تھے۔ یہ سال سبت یعنی آرام کا سال ہوتا تھا جس میں بنی اِسرائیل کاشت کاری نہیں کرتے تھے۔ (‏احبار 25:‏4، 5‏)‏ یہی وجہ تھی کہ ساتویں سال فصل کی کٹائی کے موسم میں دہ یکی جمع نہیں کی جاتی تھی۔بنی اِسرائیل سات سال کے اِس عرصے کے دوران ہر تیسرے اور چھٹے سال میں دوسری دہ یکی غریبوں اور لاویوں کو دیتے تھے۔—‏اِستثنا 14:‏28، 29‏۔‏

 دہ یکی نہ دینے کی کیا سزا تھی؟‏ موسیٰ کی شریعت میں اِس کے لیے کوئی سزا نہیں تھی۔دہ یکی دینا ایک ایسا کام تھا جو خدا کی نظر میں اچھا تھا۔دہ یکی دینے کے بعد اِسرائیلیوں کو خدا کے حضور اِقرار کرنا ہوتا تھا کہ اُنہوں نے دہ یکی دے دی ہے اور اُس سے درخواست کرنی ہوتی تھی کہ وہ اِس کے بدلے میں اُنہیں برکتیں دے۔ (‏اِستثنا 26:‏12-‏15‏)‏ اگر کوئی شخص دہ یکی نہیں دیتا تھا تو یہ خدا کی نظر میں چوری کرنے کے برابر ہوتا تھا۔—‏ملاکی 3:‏8، 9‏۔‏

 کیا دہ یکی ایک بھاری بوجھ تھا؟‏ نہیں۔ خدا نے اپنی قوم سے وعدہ کِیا تھا کہ اگر وہ دہ یکی دیں گے تو وہ اُن پر برکتیں برسائے گا اور اُنہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہو گی۔ (‏ملاکی 3:‏10‏)‏ لیکن جب وہ خدا کے حضور دہ یکی نہیں لاتے تھے تو اُنہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔اُنہیں خدا کی طرف سے برکتیں نہیں ملتی تھیں اور کاہنوں اور لاویوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتی تھیں۔اِس لیے کاہنوں اور لاویوں کو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا تھا اور وہ خدا کی عبادت کرنے میں صحیح طرح سے بنی اِسرائیل کی مدد نہیں کر پاتے تھے۔—‏نحمیاہ 13:‏10؛‏ ملاکی 3:‏7‏۔‏

 دہ یکی کے بارے میں پاک کلام کی تعلیم—‏نئے عہدنامے میں

 جب تک یسوع مسیح زمین پر تھے تب تک خدا کے بندے دہ یکی دینے کے پابند تھے۔ لیکن یسوع مسیح کی موت کے بعد وہ دہ یکی دینے کے پابند نہیں رہے۔ 

یسوع مسیح کے زمانے میں

 بائبل کے جس حصے کو عام طور پر نیا عہدنامہ کہا جاتا ہے،اُس سے پتہ چلتا ہے کہ جب تک یسوع مسیح زمین پر تھے تب تک بنی اِسرائیل دہ یکی دیا کرتے تھے۔یسوع مسیح نے کہا کہ دہ یکی دینا ضروری ہے۔مگر اُنہوں نے مذہبی پیشواوں کو ملامت کی جو بڑی پابندی سے دہ یکی تو دیتے تھے ”‏لیکن شریعت کے اہم معاملوں یعنی اِنصاف،رحم اور ایمان کو نظرانداز“‏ کر دیتے تھے۔—‏متی 23:‏23‏۔‏

یسوع کی موت کے بعد

 یسوع مسیح کی موت کے بعد بنی اِسرائیل دہ یکی دینے کے پابند نہیں رہے۔یسوع کی قربانی کے ساتھ ہی موسیٰ کی شریعت بھی ختم ہو گئی جس میں ”‏دسواں حصہ اِکٹھا“‏ کرنے کا حکم بھی شامل تھا۔—‏عبرانیوں 7:‏5،‏ 18؛‏ اِفسیوں 2:‏13-‏15؛‏ کُلسّیوں 2:‏13، 14‏۔ 

a دہ یکی ”‏اُس دسویں حصے کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنے مال میں سے کسی خاص مقصد کے لیے الگ کرتا ہے۔ .‏.‏.‏ عام طور پر بائبل میں دہ یکی کا ذکر مذہبی کاموں کے حوالے سے کِیا گیا ہے۔“‏—‏ہارپرز بائبل ڈکشنری،‏ صفحہ 765۔‏