مواد فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح نے اپنی جان کیوں دی؟‏

یسوع مسیح نے اپنی جان کیوں دی؟‏

پاک کلام کا جواب

 یسوع مسیح نے اپنی جان اِس لیے قربان کی تاکہ اِنسانوں کو اپنے گُناہوں سے معافی اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔ (‏رومیوں 6:‏23؛‏ اِفسیوں 1:‏7‏)‏ یسوع کی موت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اِنسان مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں۔—‏عبرانیوں 4:‏15‏۔‏

 غور کریں کہ ایک اِنسان کی موت سے کیا کچھ ممکن ہوا۔‏

  1.   یسوع مسیح نے اپنی جان اِس لیے قربان کی تاکہ ہمیں ”‏گُناہوں کی معافی“‏ ملے۔—‏کُلسّیوں 1:‏14‏۔‏

     جب پہلے اِنسان آدم کو بنایا گیا تو وہ بے‌عیب یعنی گُناہ سے پاک تھے۔ لیکن اُنہوں نے خدا کے حکم کے خلاف جانے کا فیصلہ کِیا۔ آدم کی نافرمانی یا اُن کے گُناہ کا اثر اُن کی تمام اولاد پر پڑا۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏ایک آدمی کی نافرمانی سے بہت سے لوگوں کو گُناہ گار ٹھہرایا گیا۔“‏—‏رومیوں 5:‏19‏۔‏

     آدم کی طرح یسوع مسیح بھی بے‌عیب تھے لیکن اُنہوں نے کبھی گُناہ نہیں کِیا۔ لہٰذا ”‏وہ ہمارے گُناہوں کے لیے کفارے کی قربانی“‏ بن سکتے تھے۔ (‏1-‏یوحنا 2:‏2‏)‏ آدم کی نافرمانی سے تمام اِنسان گُناہ گار بن گئے لیکن یسوع مسیح کی موت سے اُن تمام اِنسانوں کے گُناہ مٹ گئے جو اُن پر ایمان لاتے ہیں۔‏

     ایک لحاظ سے آدم نے تمام اِنسانوں کو گُناہ کا غلام بننے کے لیے بیچ دیا۔ لیکن یسوع مسیح نے خوشی سے ہماری جگہ اپنی جان قربان کر کے ہمیں خرید لیا۔ لہٰذا اب ’‏اگر کوئی شخص گُناہ کرتا ہے تو آسمانی باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار ہے یعنی یسوع مسیح جو نیک ہے۔‘‏—‏1-‏یوحنا 2:‏1‏۔‏

  2.   یسوع مسیح نے اپنی جان اِس لیے قربان کی”‏تاکہ جو کوئی [‏اُن]‏ پر ایمان ظاہر کرے، وہ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“‏—‏یوحنا 3:‏16‏۔‏

     حالانکہ آدم کو ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن گُناہ کرنے کی وجہ سے اُنہیں موت کی سزا ملی۔ لیکن یہ سزا صرف اُنہیں ہی نہیں ملی بلکہ پاک کلام میں لکھا ہے کہ اُن کے ذریعے ”‏گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے ذریعے موت آئی اور موت سب لوگوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گُناہ کِیا۔“‏—‏رومیوں 5:‏12‏۔‏

     لیکن یسوع مسیح کی موت سے نہ صرف اِنسانوں کے گُناہ مٹ گئے بلکہ اِس کے ذریعے اُن سب لوگوں کو موت کی سزا سے بھی رِہائی ملی جو اُن پر ایمان لاتے ہیں۔ پاک کلام میں اِس بات کو اِس طرح سے بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏جس طرح گُناہ نے موت کے ساتھ حکمرانی کی اُسی طرح رحمت بھی حکمرانی کرے تاکہ ہمارے مالک یسوع مسیح کے ذریعے ہمیں نیک قرار دیا جائے اور ہمیشہ کی زندگی دی جائے۔“‏—‏رومیوں 5:‏21‏۔‏

     بے‌شک آج اِنسانوں کی زندگی مختصر سی ہے۔ لیکن خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ وفادار اِنسانوں کو ہمیشہ کی زندگی دے گا اور مُردوں کو زندہ کرے گا تاکہ وہ بھی یسوع مسیح کی قربانی سے فائدہ حاصل کر سکیں۔—‏زبور 37:‏29؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏22‏۔‏

  3.   یسوع مسیح ”‏موت کا سامنا کرتے وقت بھی فرمانبردار رہے“‏ اور یوں اُنہوں نے ثابت کِیا کہ اِنسان مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کا وفادار رہ سکتا ہے۔—‏فِلپّیوں 2:‏8‏۔‏

     حالانکہ آدم کا جسم اور سوچ ہر طرح کے نقص اور عیب سے پاک تھی لیکن پھر بھی اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی۔ اُنہوں نے ایک ایسی چیز کا لالچ کِیا جس پر اُن کا کوئی حق نہیں تھا۔ (‏پیدایش 2:‏16، 17؛‏ 3:‏6‏)‏ بعد میں خدا کے سب سے بڑے دُشمن شیطان نے دعویٰ کِیا کہ کوئی بھی اِنسان بغیر کسی لالچ کے خدا کا فرمانبردار نہیں رہے گا، خاص طور پر تب جب اُس کی جان خطرے میں ہوگی۔ (‏ایوب 2:‏4‏)‏ لیکن یسوع مسیح اُس وقت بھی خدا کے فرمانبردار اور وفادار رہے جب اُنہیں شرم ناک اور تکلیف دہ موت سہنی پڑی۔ (‏عبرانیوں 7:‏26‏)‏ اُن کی موت سے شیطان کے اِعتراض کا مکمل جواب مل گیا یعنی یہ کہ ایک اِنسان پر چاہے کتنی بڑی مشکل کیوں نہ آ جائے، وہ خدا کا وفادار رہ سکتا ہے۔‏

یسوع مسیح کی موت سے متعلق کچھ سوال

  •   اِنسانوں کو نجات دِلانے کے لیے یسوع کو کیوں تکلیف سہنی پڑی اور مرنا پڑا ؟ خدا نے گُناہ گار اِنسانوں کے لیے موت کی سزا کو ختم کیوں نہیں کر دیا؟‏

     خدا کی شریعت میں بتایا گیا ہے کہ ”‏گُناہ کی مزدوری موت ہے۔“‏ (‏رومیوں 6:‏23‏)‏ اور یہی بات خدا نے آدم کو صاف صاف بتا دی تھی کہ اگر وہ نافرمانی کریں گے تو اِس کی سزا موت ہوگی۔ (‏پیدایش 3:‏3‏)‏ لہٰذا جب آدم نے گُناہ کِیا تو خدا اپنی بات پر قائم رہا کیونکہ وہ ”‏جھوٹ نہیں بول سکتا۔“‏ (‏طِطُس 1:‏2‏)‏ آدم نے اپنی اولاد کو ورثے میں صرف گُناہ ہی نہیں دیا بلکہ گُناہ کی مزدوری یعنی موت بھی دی۔‏

     حالانکہ گُناہ گار اِنسان موت کی سزا کے لائق ہیں لیکن خدا نے اُن پر ’‏بڑی عظیم رحمت‘‏ ظاہر کی۔ (‏اِفسیوں 1:‏7‏)‏ اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا تاکہ وہ اپنی بے‌عیب جان ہمارے لیے قربان کر سکے۔ خدا نے اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات دِلانے کا جو بندوبست کِیا، اُس سے صاف نظر آتا ہے کہ خدا کتنا اِنصاف پسند اور رحم کرنے والا ہے۔‏

  •   یسوع کب فوت ہوئے؟‏

     یسوع سورج نکلنے کے ”‏نویں گھنٹے“‏ یا تقریباً دوپہر تین بجے یہودیوں کی عیدِفسح کے دن فوت ہوئے۔ (‏مرقس 15:‏33-‏37‏، فٹ نوٹ)‏ جدید کیلنڈر کے مطابق یہ تاریخ جمعہ، 1 اپریل 33ء ہے۔‏

  •   یسوع کہاں فوت ہوئے؟‏

     یسوع کو سُولی دینے کے لیے ”‏اُس جگہ لے جایا گیا جسے کھوپڑی کہا جاتا ہے اور عبرانی میں اُس کا نام گلگتا ہے۔“‏ (‏یوحنا 19:‏17، 18‏)‏ یسوع مسیح کے زمانے میں یہ جگہ ”‏شہر [‏یروشلیم]‏ سے باہر“‏ تھی۔ (‏عبرانیوں 13:‏12‏)‏ ہو سکتا ہے کہ یہ جگہ ایک پہاڑ پر واقع تھی کیونکہ پاک کلام میں لکھا ہے کہ جب یسوع کو سُولی دیا جا رہا تھا تو کچھ لوگ اُنہیں ’‏فاصلے سے‘‏دیکھ رہے تھے ۔ (‏مرقس 15:‏40‏)‏ البتہ آج یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اب گلگتا کس جگہ پر ہے۔‏

  •   یسوع کو کیسے مارا گیا؟‏

     بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھا کر مارا گیا لیکن بائبل میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏وہ ہمارے گُناہوں کو اپنے جسم میں درخت پر لے گیا۔“‏ (‏1-‏پطرس 2:‏24‏، کنگ جیمز ورشن‏)‏ جس چیز پر یسوع مسیح کو لٹکایا گیا تھا اُس کے لیے یونانی میں دو الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں:‏ ستاؤرس اور کسیلون۔ بہت سے عالم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ دونوں یونانی الفاظ ایک سیدھی بَلّی یا کھمبے کی طرف اِشارہ کرتے ہیں جو لکڑی کے صرف ایک ٹکڑے سے بنا ہو۔‏

  •   ہمیں یسوع کی موت کو کیسے یاد کرنا چاہیے؟‏

     اپنی موت سے پہلے جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ عیدِفسح منائی تو اِس رات اُنہوں نے ایک اَور سادہ سی تقریب منائی اور اپنے شاگردوں کو یہ حکم دیا:‏ ”‏میری یاد میں ایسا کِیا کریں۔ “‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 11:‏24‏)‏ اِس کے کچھ گھنٹوں بعد یسوع مسیح کو مار دیا گیا۔‏

     پاک کلام کو لکھنے والوں نے یسوع مسیح کو ایک ایسے میمنے سے تشبیہ دی جسے عیدِفسح پر قربان کِیا جاتا تھا۔(‏1-‏کُرنتھیوں 5:‏7‏)‏ عیدِفسح یہودیوں کو یہ یاد دِلاتی تھی کہ وہ غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں۔ اِسی طرح جب مسیحی یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب مناتے ہیں تو یہ دن اُنہیں یاد دِلاتا ہے کہ اُنہیں گُناہ اور موت سے آزادی مل گئی ہے۔‏

     ہر سال موجودہ کیلنڈر کی جو تاریخ 14 نیسان کو پڑتی ہے، اُس تاریخ پر پوری دُنیا میں لاکھوں لوگ یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب مناتے ہیں۔‏