مواد فوراً دِکھائیں

یہوواہ کون ہے؟‏

یہوواہ کون ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 بائبل کے مطابق یہوواہ سچا خدا ہے اور وہی تمام چیزوں کا خالق ہے۔ (‏مکاشفہ 4:‏11‏)‏ ابراہام نبی، موسیٰ نبی اور یسوع مسیح اُس کی عبادت کرتے تھے۔ (‏خروج 15:‏1-‏3؛‏ یوحنا 20:‏17‏)‏ وہ کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ ”‏پوری دُنیا“‏ کا خدا ہے۔—‏زبور 47:‏2‏، اُردو جیو ورشن۔‏

 بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کا ذاتی نام یہوواہ ہے۔ (‏خروج 6:‏3؛‏ زبور 83:‏18‏)‏ یہ نام ایک عبرانی فعل سے نکلا ہے جس کا مطلب ”‏بننا“‏ ہے۔ بعض عالموں کا خیال ہے کہ نام یہوواہ کا مطلب ہے:‏ ”‏وہ بناتا ہے۔“‏ خدا کے نام کی یہ تشریح بہت ہی مناسب ہے کیونکہ یہوواہ خدا نے پوری کائنات اور ہر جان‌دار شے کو بنایا ہے اور وہ اپنے اِرادوں اور فیصلوں کو حقیقت بناتا آیا ہے۔ (‏یسعیاہ 55:‏10، 11‏)‏ بائبل کے ذریعے ہم یہوواہ خدا کی صفات کے بارے میں جان سکتے ہیں، خاص طور پر اُس کی محبت کے بارے میں جو کہ اُس کی بنیادی صفت ہے۔—‏خروج 34:‏5-‏7؛‏ لُوقا 6:‏35؛‏ 1-‏یوحنا 4:‏8‏۔‏

 اُردو زبان میں خدا کا نام عام طور پر ”‏یہوواہ“‏ لکھا جاتا ہے۔ عبرانی زبان میں خدا کے نام کے ہجے یہ چار عبرانی حروف ہیں:‏ יהוה۔ اِن حروف کو اُردو میں یوں لکھا جاتا ہے:‏ ی-‏ہ-‏و-‏ہ۔ کوئی بھی شخص اِس بات سے واقف نہیں ہے کہ قدیم عبرانی زبان میں خدا کے نام کا تلفظ کیا تھا۔‏

آج لوگ اِس بات سے واقف کیوں نہیں ہیں کہ قدیم عبرانی زبان میں خدا کے نام کا تلفظ کیا تھا؟‏

 قدیم زمانے میں عبرانی زبان حروفِ‌علت (‏یعنی تلفظ ظاہر کرنے والے حروف اور علامتوں)‏کے بغیر لکھی جاتی تھی۔ چونکہ عبرانی اُن کی روزمرہ کی زبان تھی اِس لیے وہ لوگ جانتے تھے کہ اُنہوں نے پڑھتے وقت ایک لفظ کا تلفظ کیسے ادا کرنا ہے۔ لیکن عبرانی صحیفوں (‏پُرانا عہدنامہ)‏ کے لکھے جانے کے کچھ دیر بعد بعض یہودیوں نے یہ نظریہ اپنا لیا کہ خدا کا نام زبان پر لانا غلط ہے۔ اِس لیے جب وہ کوئی ایسا صحیفہ اُونچی آواز میں پڑھتے تھے جس میں خدا کا نام ہوتا تھا تو وہ اِس کی جگہ ”‏خدا“‏ یا ”‏خداوند“‏ جیسے القاب اِستعمال کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظریہ عام ہوتا گیا اور آخرکار ایک ایسا وقت آیا کہ کوئی بھی شخص خدا کے نام کے درست تلفظ سے واقف نہ رہا۔‏ a

 کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏یہوِہ“‏ ہے جبکہ دوسرے لوگ اِس سلسلے میں فرق رائے رکھتے ہیں۔ بحیرۂ‌مُردار کے قریب سے جو طومار ملے ہیں، اُن میں احبار کی کتاب کے ایک حصے میں یونانی میں خدا کا نام ”‏اِیاؤ“‏ لکھا ہے۔ پُرانے زمانے کے کچھ یونانی مصنفوں کا کہنا ہے کہ خدا کے نام کا تلفظ ”‏اِیائے،“‏ ”‏اِیابے“‏ اور ”‏اِیاؤَے“‏ ہے۔ لیکن ہم یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ قدیم عبرانی زبان میں خدا کے نام کا تلفظ کیسے ادا کِیا جاتا تھا۔‏ b

خدا کے نام کے حوالے سے غلط‌فہمیاں

 غلط‌فہمی:‏ کچھ ترجمہ‌نگاروں نے اپنی طرف سے نام”‏یہوواہ“‏بائبل میں ڈال دیا ہے۔‏

 حقیقت:‏ بائبل میں خدا کا نام اِن چار عبرانی حروف میں יהוה تقریباً 7000 مرتبہ آتا ہے۔ لیکن بائبل کے زیادہ‌تر ترجموں سے نام ”‏یہوواہ“‏ نکال دیا گیا ہے اور اِس کی جگہ ”‏خداوند“‏ یا اِس طرح کے دوسرے القاب لگا دیے گئے ہیں۔‏

 غلط‌فہمی:‏ قادرِمطلق خدا کو اپنی پہچان کرانے کے لیے کسی خاص نام کی ضرورت نہیں ہے۔‏

 حقیقت:‏ خدا نے بائبل لکھنے والوں کو یہ اِلہام بخشا کہ وہ بائبل میں ہزاروں بار اُس کا نام تحریر کریں اور اُس نے اپنی عبادت کرنے والوں کو بھی اپنا نام اِستعمال کرنے کی ہدایت کی۔ (‏یسعیاہ 42:‏8؛‏ رومیوں 10:‏13‏)‏ خدا نے اُن جھوٹے نبیوں کو سزا کے لائق ٹھہرایا جن کی وجہ سے لوگ خدا کا نام بھول گئے تھے۔—‏یرمیاہ 23:‏27‏۔‏

 غلط‌فہمی:‏ بائبل سے خدا کا نام ہٹا دینا چاہیے کیونکہ یہودی اپنی روایتوں کی وجہ سے خدا کا نام اِستعمال نہیں کرتے۔‏

 حقیقت:‏ سچ ہے کہ کچھ یہودی عالموں نے خدا کا نام لینے سے اِنکار کر دیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے بائبل کی نقلوں سے یہ نام نہیں ہٹایا۔ بہرحال خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم ایسی اِنسانی روایتوں کی پیروی کریں جو اُس کے حکموں سے ٹکراتی ہیں۔—‏متی 15:‏1-‏3‏۔‏

 غلط‌فہمی:‏ بائبل میں خدا کا نام اِس لیے اِستعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کسی بھی شخص کو یہ معلوم نہیں کہ قدیم عبرانی زبان میں اِس کا درست تلفظ کیا تھا۔‏

 حقیقت:‏ اگر یہ بات سچ ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ خدا لوگوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ فرق فرق زبانیں بولنے کے باوجود اُس کے نام کا ایک جیسا تلفظ کریں۔ مگر قدیم زمانے میں بھی خدا کے بندے فرق فرق زبانیں بولتے تھے اور بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ناموں کے فرق فرق تلفظ کرتے تھے۔‏

 اِس سلسلے میں اِسرائیل کے پیشوا یشوع کے نام کی مثال لیں۔ پہلی صدی عیسوی میں عبرانی بولنے والے مسیحی اِس نام کا تلفظ ”‏یہوشوعا“‏ کرتے ہوں گے جبکہ یونانی بولنے والے مسیحی اِس کا تلفظ ”‏ایئے‌سُوس“‏ کرتے ہوں گے۔بائبل میں یشوع کے نام کو یونانی تلفظ ”‏ایئے‌سُوس“‏ کے ساتھ لکھا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی صدی کے مسیحیوں نے اِس نام کا وہ تلفظ اِستعمال کِیا جو اُن کی زبان میں زیادہ عام تھا۔—‏اعمال 7:‏45؛‏ عبرانیوں 4:‏8‏۔‏

 یہی اصول خدا کے نام کے تلفظ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ حالانکہ ہم خدا کے نام کے درست تلفظ سے واقف نہیں ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ اصل متن میں جہاں جہاں خدا کا نام اِستعمال ہوا ہے، ہم بائبل میں اُن جگہوں پر اُس کا نام اِستعمال کریں۔‏

a ‏”‏نیو کیتھولک اِنسائیکلوپیڈیا“‏ کے دوسرے ایڈیشن کی جِلد نمبر 14 کے صفحہ 883، 884 پر بتایا گیا ہے:‏ ”‏جب یہودی [‏بابل]‏ کی جلاوطنی سے لوٹ آئے تو اِس کے تھوڑی دیر بعد یہ نظریہ عام ہو گیا کہ نام ”‏یہوِہ“‏ اِتنا پاک ہے کہ اِسے زبان پر نہیں لایا جانا چاہیے۔ لہٰذا اِس کی جگہ لفظ ”‏ادونائی“‏ یا ”‏الوہیم“‏ بولنے کا رواج شروع ہو گیا۔“‏

b مزید معلومات کے لیے ”‏کتابِ‌مُقدس کی تحقیق کے لیے گائیڈ“‏ کے پہلے حصے ”‏کتابِ‌مُقدس کے عبرانی صحیفوں میں خدا کا نام‏“‏ کو دیکھیں۔‏