مواد فوراً دِکھائیں

اِن جیسا ایمان ظاہر کریں | یونتن

‏’‏یونتن کا دل داؤد کے دل سے مل گیا‘‏

‏’‏یونتن کا دل داؤد کے دل سے مل گیا‘‏

جنگ اپنے انجام کو پہنچ چُکی تھی اور اَیلہ کی وادی میں خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔‏ سہ‌پہر کی ہلکی ہلکی ہوا فوجی خیموں کے کپڑوں کو لہرا رہی تھی۔‏ ایک نوجوان چرواہا بادشاہ ساؤل اور اُن کے کچھ آدمیوں کے سامنے اپنی کہانی بیان کر رہا تھا۔‏ وہ نوجوان،‏ داؤد تھا اور اُس کے اندر جوش اور ولولہ بھرا ہوا تھا۔‏ ساؤل،‏ داؤد کی ایک ایک بات کو پوری توجہ سے سُن رہے تھے۔‏ اور سننے والوں میں ساؤل کے سب سے بڑے بیٹے یونتن بھی شامل تھے۔‏ اُنہیں کیسا محسوس ہو رہا تھا؟‏ وہ بہت سال سے یہوواہ کی فوج کا حصہ تھے اور کئی جنگیں جیت چُکے تھے۔‏ لیکن آج کی جیت اُن کے نہیں بلکہ اُس نوجوان چرواہے داؤد کے نام تھی۔‏ داؤد نے دیوقامت جولیت کو مار گِرایا تھا۔‏ داؤد کو اِتنی عزت ملتے دیکھ کر کیا یونتن کے دل میں اُن کے لیے حسد پیدا ہونے لگا؟‏

یونتن کے ردِعمل کے بارے میں جان کر شاید آپ کو تعجب ہو۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏جب وہ ساؔؤل سے باتیں کر چُکا تو یونتنؔ کا دل داؔؤد کے دل سے ایسا مل گیا کہ یونتنؔ اُس سے اپنی جان کے برابر محبت کرنے لگا۔‏“‏ یونتن نے داؤد کو اپنا جنگی لباس دے دیا جس میں اُن کی کمان بھی شامل تھی۔‏ یہ کمان یونتن کی طرف سے داؤد کے لیے بڑا خاص تحفہ تھی کیونکہ یونتن کو ماہر تیرانداز مانا جاتا تھا۔‏ اِس کے علاوہ یونتن اور داؤد نے آپس میں ایک عہد باندھا۔‏ یہ عہد ایک سنجیدہ وعدہ تھا جس کے مطابق اُن دونوں نے ہمیشہ دوست رہنا تھا اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھانا تھا۔‏—‏1-‏سموئیل 18:‏1-‏5‏۔‏

یوں اُس دوستی کا آغاز ہوا جو پاک کلام میں ذکرکردہ سب سے خوب‌صورت دوستیوں میں سے ایک ہے۔‏ جو لوگ مضبوط ایمان کے مالک ہوتے ہیں،‏ اُن کے لیے دوستی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔‏ اگر ہم سوچ سمجھ کر دوست بناتے ہیں اور ایک وفادار اور ساتھ نبھانے والے دوست ثابت ہوتے ہیں تو ہم محبت سے خالی اِس دُنیا میں ایک دوسرے کے ایمان کو مضبوط کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال 27:‏17‏)‏ تو پھر آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم دوستی کے حوالے سے یونتن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔‏

دوستی کی بنیاد

داؤد اور یونتن کے درمیان اِتنی جلدی مضبوط دوستی کیسے ہو گئی تھی؟‏ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اُن کی دوستی کی بنیاد کیا تھی۔‏ ذرا اُن حالات کے پس‌منظر پر غور کریں جن میں اُن دونوں کی دوستی ہوئی تھی۔‏ یونتن کی زندگی میں بڑی مشکل صورتحال چل رہی تھی۔‏ اُن کے والد بادشاہ ساؤل بہت بدل گئے تھے اور بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔‏ جو شخص کسی وقت میں خاکساری،‏ فرمانبرداری اور ایمان کی مثال تھا،‏ وہ اب غرور اور نافرمانی کے گھوڑے پر سوار ہو چُکا تھا۔‏—‏1-‏سموئیل 15:‏17-‏19،‏ 26‏۔‏

ساؤل کی شخصیت میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھ کر یونتن کا دل یقیناً بہت دُکھتا ہوگا کیونکہ وہ اپنے باپ کے بہت قریب تھے۔‏ (‏1-‏سموئیل 20:‏2‏)‏ غالباً یونتن کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ساؤل کی وجہ سے یہوواہ کی چُنی ہوئی قوم کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔‏ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتے ہوں گے کہ بادشاہ کی نافرمانی کی بدولت کہیں اُس کی رعایا گمراہ نہ ہو جائے اور یہوواہ کی خوشنودی نہ کھو بیٹھے۔‏ بےشک یونتن جیسے خدا کے وفادار بندے کے لیے وہ بڑا کٹھن وقت تھا۔‏

حالات کے پس‌منظر کو جاننے سے ہم یہ سمجھ پاتے ہیں کہ داؤد نے یونتن کے دل کو اِتنا کیوں موہ لیا تھا۔‏ یونتن نے دیکھا تھا کہ داؤد کتنے پُختہ ایمان والے شخص ہیں۔‏ ذرا یاد کریں کہ ساؤل کے فوجیوں کے برعکس داؤد،‏ جولیت کے قد کاٹھ کو دیکھ کر خوف کی لپیٹ میں نہیں آئے تھے۔‏ چونکہ وہ یہوواہ کا نام لے کر لڑائی میں جا رہے تھے اِس لیے اُنہیں یقین تھا کہ وہ جولیت کے دیوقامت وجود اور تمام ہتھیاروں کے باوجود اُسے آسانی سے ہرا سکتے ہیں۔‏—‏1-‏سموئیل 17:‏45-‏47‏۔‏

سالوں پہلے یونتن نے بھی ایسے ہی ایمان کا مظاہرہ کِیا تھا۔‏ اُنہیں پورا یقین تھا کہ صرف دو آدمی یعنی وہ اور اُن کا سلاح‌بردار فلستیوں کی پوری چوکی پر حملہ کر کے اُنہیں شکست کا مُنہ دِکھا سکتے ہیں۔‏ لیکن یونتن اِتنے پُراِعتماد کیوں تھے؟‏ وہ جانتے تھے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ سے بچانے کی قید نہیں۔‏“‏ (‏1-‏سموئیل 14:‏6‏)‏ لہٰذا یونتن اور داؤد دونوں یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اور اُس سے گہری محبت کرتے تھے۔‏ دو لوگوں کے درمیان دوستی کی اِس سے اچھی بنیاد اَور کیا ہو سکتی ہے؟‏ جب اُن کی دوستی ہوئی تو یونتن ایک طاقت‌ور شہزادے اور تقریباً 50 سال کے تھے جبکہ داؤد ایک معمولی چرواہے تھے اور 20 سال کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے۔‏ لیکن اُن دونوں کے بیچ یہ فرق کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔‏ *

داؤد اور یونتن نے آپس میں جو عہد باندھا تھا،‏ اُس نے اُن کی دوستی کو محفوظ رکھا۔‏ ذرا دیکھیں کہ ایسا کیسے ہوا۔‏ داؤد کو معلوم تھا کہ یہوواہ نے اُن کے لیے کیا سوچا ہوا ہے۔‏ یہوواہ چاہتا تھا کہ وہ اِسرائیل کے اگلے بادشاہ بنیں۔‏ آپ کے خیال میں کیا داؤد نے یونتن سے یہ بات چھپائے رکھی ہوگی؟‏ بےشک نہیں۔‏ ایک اچھی دوستی کی جڑیں آپس میں کُھل کر بات کرنے سے مضبوط ہوتی ہیں جبکہ باتیں چھپانے اور غلط‌بیانی کرنے سے یہ جڑیں کھوکھلی ہونے لگتی ہیں۔‏ یونتن کو یہ جان کر کیسا لگا ہوگا کہ داؤد اِسرائیل کے بادشاہ بنیں گے؟‏ کیا اُنہوں نے یہ اُمید لگائی ہوئی تھی کہ وہ ایک دن بادشاہ کا عہدہ سنبھالیں گے اور اپنے باپ کی حرکتوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی تلافی کریں گے؟‏ بائبل میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی جس سے یہ اِشارہ ملے کہ یونتن اندر ہی اندر کسی کشمکش میں مبتلا تھے۔‏ اِس میں وہ باتیں بتائی گئی ہیں جن کا ذکر زیادہ ضروری ہے یعنی یونتن کی وفاداری اور اُن کا ایمان۔‏ یونتن کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہوواہ کی روح داؤد کے ساتھ ہے۔‏ (‏1-‏سموئیل 16:‏1،‏ 11-‏13‏)‏ لہٰذا یونتن اپنے وعدے کو نبھاتے رہے اور یہ سوچنے کی بجائے کہ داؤد اُن کے مدِمقابل ہیں،‏ اُنہیں اپنا دوست خیال کرتے رہے۔‏ یونتن کو بس اِس بات سے غرض تھی کہ یہوواہ کی مرضی ہو۔‏

یونتن اور داؤد دونوں خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اور اُس سے گہری محبت کرتے تھے۔‏

یونتن اور داؤد کی دوستی بڑی بابرکت ثابت ہوئی۔‏ ہم یونتن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ خدا کے ہر بندے کو دوستی کی قدروقیمت کا اندازہ ہونا چاہیے۔‏ یہ لازمی نہیں کہ ہمارے دوست وہ لوگ ہوں جن کی عمر اور پس‌منظر ہم سے میل کھاتا ہو۔‏ لازمی یہ ہے کہ وہ حقیقی ایمان کے مالک ہوں۔‏ ایسے دوست ہمیں بڑا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔‏ یونتن اور داؤد نے بہت بار ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا۔‏ اور ایسا کرنا اُن کے لیے ضروری بھی تھا کیونکہ اُن کی دوستی اَور بھی کڑے اِمتحانوں سے گزرنے والی تھی۔‏

اپنے باپ کا وفادار یا اپنے دوست کا؟‏

پہلے پہل تو داؤد،‏ ساؤل کے دل کو بہت بھائے تھے۔‏ اُنہوں نے تو داؤد کو اپنی فوج کا سردار بھی مقرر کر دیا تھا۔‏ لیکن ساؤل کو بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔‏ وہ بہت جلد اُس دُشمن سے شکست کھا بیٹھے جسے یونتن نے اپنے اُوپر غالب نہیں آنے دیا تھا اور وہ دُشمن تھا حسد۔‏ داؤد اِسرائیل کے دُشمنوں یعنی فلستیوں کے خلاف جنگ میں ایک کے بعد ایک فتح اپنے نام کرتے جا رہے تھے۔‏ اور اِس لیے وہ لوگوں سے بڑی عزت اور تعریف پا رہے تھے۔‏ اِسرائیل کی کچھ عورتوں نے تو ایک گیت گاتے ہوئے یہاں تک کہا:‏ ”‏ساؔؤل نے تو ہزاروں کو پر داؔؤد نے لاکھوں کو مارا۔‏“‏ ساؤل کو یہ بات بالکل ہضم نہیں ہوئی۔‏ اِس لیے ’‏اُس دن سے آگے کو ساؔؤل داؔؤد کو بدگمانی سے دیکھنے لگے۔‏‘‏ (‏1-‏سموئیل 18:‏7،‏ 9‏)‏ اُنہیں یہ ڈر ستانے لگا کہ داؤد اُن سے اُن کا تاج چھین لیں گے۔‏ لیکن یہ خدشہ بالکل بےبنیاد تھا۔‏ سچ ہے کہ داؤد جانتے تھے کہ وہ ساؤل کے بعد اِسرائیل کے بادشاہ بنیں گے لیکن اُن کے ذہن میں کبھی یہ خیال تک نہیں آیا کہ وہ یہوواہ کے مسح‌شُدہ بادشاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اُس کی جگہ لے لیں۔‏

ساؤل نے سازش کی کہ وہ داؤد کو جنگ میں مروا دیں۔‏ لیکن اُن کی یہ سازش ناکام ہو گئی۔‏ داؤد فتوحات سمیٹتے جا رہے تھے اور لوگوں کی نظروں میں اَور عزت کما رہے تھے۔‏ پھر ساؤل نے ایک اَور ترکیب آزمائی۔‏ اُنہوں نے اپنے سارے خادموں اور اپنے سب سے بڑے بیٹے یونتن کو داؤد کی موت کا جال بچھانے کے منصوبے میں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔‏ ذرا سوچیں کہ اپنے باپ کو ایسے گھٹیا منصوبے بناتے دیکھ کر یونتن کا دل کتنا کڑھتا ہوگا!‏ (‏1-‏سموئیل 18:‏25-‏30؛‏ 19:‏1‏)‏ یونتن ایک وفادار بیٹے تو تھے ہی لیکن وہ ایک وفادار دوست بھی تھے۔‏ اور اب صورتحال ایسی ہو گئی تھی کہ اُنہیں دونوں میں سے کسی ایک کو چُننا تھا۔‏ اُنہوں نے کیا فیصلہ کِیا؟‏

یونتن بول اُٹھے:‏ ”‏بادشاہ اپنے خادم داؔؤد سے بدی نہ کرے کیونکہ اُس نے تیرا کچھ گُناہ نہیں کِیا بلکہ تیرے لئے اُس کے کام بہت اچھے رہے ہیں۔‏ کیونکہ اُس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی اور اُس فلستی کو قتل کِیا اور یہوواہ نے سب اِسرائیلیوں کے لئے بڑی فتح کرائی۔‏ تُو نے یہ دیکھا اور خوش ہوا۔‏ پس تُو کس لئے داؤد کو بےسبب قتل کر کے بےگُناہ کے خون کا مُجرم بننا چاہتا ہے؟‏“‏ توقع کے برعکس ساؤل نے اُس وقت یونتن کی بات مان لی،‏ یہاں تک کہ یہ قسم بھی کھائی کہ وہ داؤد کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‏ لیکن پھر ساؤل اپنی بات سے پھر گئے۔‏ جب اُنہوں نے داؤد کو اَور کامیابیاں حاصل کرتے دیکھا تو وہ اِس حد تک حسد اور غصے سے بھر گئے کہ اُنہوں نے داؤد کو بھالا مار کر قتل کرنے کی کوشش کی۔‏ (‏1-‏سموئیل 19:‏4-‏6،‏ 9،‏ 10‏)‏ لیکن داؤد اُن کے وار سے بچ گئے اور شاہی دربار سے بھاگ نکلے۔‏

کیا آپ کو کبھی ایسی صورتحال کا سامنا ہوا ہے جس میں آپ کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہو کہ آپ کس کے وفادار رہیں گے؟‏ یہ بڑا تکلیف‌دہ وقت ہو سکتا ہے۔‏ ایسے حالات میں شاید کچھ لوگ آپ کو یہ مشورہ دیں کہ آپ کو سب سے پہلے اپنے گھر والوں سے وفاداری نبھانی چاہیے۔‏ لیکن یونتن اچھی طرح جانتے تھے کہ اُنہیں سب سے پہلے یہوواہ سے وفاداری کرنی چاہیے۔‏ اِسی لیے وہ اپنے باپ کا ساتھ دینے کی بجائے داؤد کی حمایت میں بولے کیونکہ داؤد یہوواہ کے وفادار اور فرمانبردار بندے تھے۔‏ یونتن نے یہوواہ کے وفادار رہنے کو تو سب سے اہم خیال کِیا ہی لیکن ساتھ ساتھ اپنے باپ سے بھی وفاداری نبھائی۔‏ اُنہوں نے اُسے وہ بات کہنے کی بجائے جو وہ سننا چاہتا تھا،‏ ایمان‌داری سے اُس کی اِصلاح کی۔‏ اگر ہم وفاداری کے سلسلے میں یونتن کی مثال پر عمل کریں گے تو ہمیں اِس کا بہت فائدہ ہوگا۔‏

وفاداری کی قیمت

یونتن نے پھر سے ساؤل اور داؤد کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی لیکن اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔‏ داؤد خفیہ طور پر یونتن سے ملے اور اُن سے کہنے لگے کہ اُنہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔‏ اُنہوں نے اپنے دوست سے کہا:‏ ”‏مجھ میں اور موت میں صرف ایک ہی قدم کا فاصلہ ہے۔‏“‏ یونتن نے داؤد سے کہا کہ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اُن کے باپ کے دماغ میں اب کیا چل رہا ہے اور پھر داؤد کو صورتحال سے آگاہ کریں گے۔‏ اُنہوں نے داؤد کو بتایا کہ جب داؤد چھپے ہوں گے تو وہ کمان سے تیر چلا کر اُنہیں اشارتاً خبر دیں گے۔‏ اِس نیکی کے بدلے میں یونتن نے داؤد سے بس اِس وعدے کو نبھانے کی قسم لی:‏ ”‏میرے گھرانے سے بھی کبھی اپنے کرم کو باز نہ رکھنا اور جب یہوواہ تیرے دُشمنوں میں سے ایک ایک کو زمین پر سے نیست‌ونابود کر ڈالے تب بھی ایسا ہی کرنا۔‏“‏ داؤد نے وعدہ کِیا کہ وہ ہمیشہ یونتن کے خاندان کا خیال رکھیں گے۔‏—‏1-‏سموئیل 20:‏3،‏ 13-‏27‏۔‏

یونتن نے ساؤل کے سامنے داؤد کی تعریف کی تو وہ غصے سے پاگل ہو گئے۔‏ اُنہوں نے سخت الفاظ میں یونتن کو ڈانٹا اور کہا کہ داؤد سے اُن کی وفاداری کی وجہ سے خاندان کی رُسوائی ہو رہی ہے۔‏ اُنہوں نے یونتن کے دل میں خودغرضی پیدا کرنے کے لیے کہا:‏ ”‏جب تک یسیؔ کا یہ بیٹا رویِ‌زمین پر زندہ ہے نہ تو تجھ کو قیام ہوگا نہ تیری سلطنت کو۔‏“‏ یونتن اپنے باپ کی باتوں میں نہیں آئے اور دوبارہ اُس سے مِنت کر کے کہنے لگے:‏ ”‏وہ کیوں مارا جائے؟‏ اُس نے کیا کِیا ہے؟‏“‏ اِس پر ساؤل کا غصہ آتش‌فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔‏ اُن کی عمر ڈھل چُکی تھی مگر وہ اب بھی ایک طاقت‌ور جنگجو تھے۔‏ اُنہوں نے اپنے بیٹے کی طرف بھالا چلا دیا۔‏ لیکن اِتنے ماہر ہونے کے باوجود وہ چُوک گئے۔‏ اپنے باپ کے رویے پر سخت غمگین ہو کر یونتن غصے میں وہاں سے چلے گئے۔‏—‏1-‏سموئیل 20:‏24-‏34‏۔‏

یونتن کی وفاداری پر خودغرضی کی میل نہیں چڑھی۔‏

اگلی صبح یونتن اپنے خادم کے ساتھ اُس میدان میں گئے جس کے قریب داؤد چھپے ہوئے تھے۔‏ اُنہوں نے کمان سے یوں تیر چلایا جس سے داؤد کو یہ اِشارہ مل گیا کہ ساؤل ابھی بھی اُنہیں قتل کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔‏ پھر یونتن نے اپنے خادم کو شہر واپس بھیج دیا۔‏ اب یونتن اور داؤد اکیلے تھے اور اُن کے پاس بات کرنے کے لیے بس تھوڑا سا وقت تھا۔‏ وہ دونوں مل کر رونے لگے اور پھر یونتن نے اپنے جوان دوست کو خدا حافظ کہا جسے اب کبھی یہاں کبھی وہاں چھپنا تھا۔‏—‏1-‏سموئیل 20:‏35-‏42‏۔‏

یونتن کی وفاداری پر خودغرضی کی میل نہیں چڑھی۔‏ خدا کے تمام بندوں کا دُشمن شیطان یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوتا کہ یونتن بھی اپنے باپ کی طرح بن جاتے اور اِختیار کے نشے میں مست ہو جاتے۔‏ یاد رکھیں کہ شیطان ہمیشہ اِس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں خودغرضی کو بڑھاوا دے۔‏ وہ آدم اور حوا کے دل میں خودغرضی کا بیج بونے میں کامیاب رہا۔‏ (‏پیدایش 3:‏1-‏6‏)‏ لیکن یونتن کے معاملے میں اُسے کامیابی نہیں ملی۔‏ بےشک اِس پر شیطان بہت بوکھلایا ہوگا۔‏ اگر شیطان آپ پر یہ وار کرتا ہے تو کیا آپ اُس کی چالوں کو ناکام بنائیں گے؟‏ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہ رہے ہیں جو خودغرضی کی ہوا سے بُری طرح آلودہ ہے۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1-‏5‏)‏ ایسے حالات میں کیا آپ یونتن جیسے بےلوث جذبے اور وفاداری کا مظاہرہ کریں گے؟‏

ایک وفادار دوست کے طور پر یونتن نے داؤد کی جان کو محفوظ رکھنے کے لیے اُنہیں ایک اِشارہ دیا۔‏

‏”‏تُو مجھ کو بہت ہی مرغوب تھا“‏

ساؤل کے اندر داؤد کے لیے غصہ جنون کی حد تک پہنچ چُکا تھا۔‏ وہ ایک بےقصور آدمی کو ڈھونڈنے کے لیے پاگلوں کی طرح جگہ جگہ اپنی فوج کے ساتھ گھوم رہے تھے۔‏ یونتن بڑی بےبسی سے اپنے باپ کو اپنے آپ کو کھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔‏ (‏1-‏سموئیل 24:‏1،‏ 2،‏ 12-‏15؛‏ 26:‏20‏)‏ کیا یونتن نے اِس کام میں ساؤل کا ساتھ دیا؟‏ دلچسپی کی بات ہے کہ پاک کلام میں اِس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ یونتن اُس وقت ساؤل کی فوج کے ساتھ تھے جب وہ داؤد کو ڈھونڈ رہی تھی۔‏ یہوواہ اور داؤد کے لیے اُن کی وفاداری بہت پکی تھی اور اُنہیں دوستی کے اپنے عہد کا اِتنا پاس تھا کہ وہ ایسا کوئی قدم اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‏

داؤد کے لیے یونتن کی محبت کبھی کم نہیں ہوئی۔‏ کچھ عرصے بعد اُنہیں دوبارہ داؤد سے ملنے کا موقع ملا۔‏ اُن کی ملاقات شہر حبرون کے جنوب مشرق میں کچھ میل کے فاصلے پر واقع ایک پہاڑی علاقے میں ہوئی۔‏ لیکن یونتن اپنی جان داؤ پر لگا کر داؤد سے ملنے کیوں گئے؟‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ اُن کا مقصد ”‏[‏یہوواہ]‏ میں اُس کا ہاتھ مضبوط“‏ کرنا تھا۔‏ (‏1-‏سموئیل 23:‏16‏)‏ یونتن نے ایسا کیسے کِیا؟‏

یونتن نے اپنے جوان دوست سے کہا:‏ ”‏تُو مت ڈر کیونکہ تُو میرے باپ ساؔؤل کے ہاتھ میں نہیں پڑے گا۔‏“‏ وہ یہ بات اِتنے یقین سے کیوں کہہ سکتے تھے؟‏ اُن کا ایمان تھا کہ یہوواہ اپنے مقصد کو ضرور پورا کرے گا۔‏ اُنہوں نے مزید کہا:‏ ”‏تُو اِؔسرائیل کا بادشاہ ہوگا۔‏“‏ دراصل یہ بات سالوں پہلے سموئیل نبی نے یہوواہ کے حکم سے کہی تھی اور اب یونتن داؤد کو یاد دِلا رہے تھے کہ یہوواہ کی باتیں ہمیشہ پوری ہوتی ہیں۔‏ یونتن نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے خیال میں داؤد کے مقابلے میں اُن کا کردار کیا ہوگا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں تجھ سے دوسرے درجہ پر ہوں گا۔‏“‏ خدا کا یہ بندہ کتنا خاکسار تھا!‏ وہ خوشی خوشی اپنے سے 30 سال چھوٹے شخص کے ماتحت کام کرنے اور اُس کا دایاں ہاتھ بننے کو تیار تھا۔‏ یونتن نے اپنی بات کو اِن الفاظ کے ساتھ مکمل کِیا:‏ ”‏یہ میرے باپ ساؔؤل کو بھی معلوم ہے۔‏“‏ (‏1-‏سموئیل 23:‏17،‏ 18‏)‏ ساؤل دل ہی دل میں اِس بات کو جانتے تھے کہ وہ اُس شخص کو نہیں ہرا سکتے جسے یہوواہ خدا نے اِسرائیل کے اگلے بادشاہ کے طور پر چُنا ہے۔‏

یونتن نے ضرورت کے وقت داؤد کا حوصلہ بڑھایا۔‏

داؤد کے ذہن سے اُس خوب‌صورت ملاقات کی یاد کبھی نہیں مٹی ہوگی۔‏ وہ اُن دونوں کی آخری ملاقات تھی۔‏ افسوس کہ یونتن کا یہ خواب حقیقت نہیں بن سکا کہ وہ داؤد سے دوسرے درجے پر فائز ہوں۔‏

یونتن اپنے باپ کے ساتھ فلستیوں کے خلاف جنگ میں گئے۔‏ اُن کا باپ سنگین غلطیاں کر رہا تھا لیکن وہ اُس کام سے پیچھے نہیں ہٹنے والے تھے جو یہوواہ کی خدمت میں شامل تھا۔‏ اِس لیے وہ صاف ضمیر سے ساؤل کے ساتھ جنگ لڑنے گئے۔‏ یونتن ہمیشہ کی طرح بہادری اور وفاداری سے لڑے۔‏ پھر بھی دُشمن فوج کا پلڑا بھاری رہا۔‏ ساؤل کے دل میں بُرائی کا بیج اِتنا گہرا ہو چُکا تھا کہ وہ بُرے فرشتوں سے رابطہ بھی کرنے لگے جو کہ خدا کی شریعت کے مطابق ایک سنگین گُناہ تھا۔‏ اِس لیے یہوواہ کی پاک روح ساؤل کے ساتھ نہیں رہی تھی۔‏ ساؤل کے تینوں بیٹے جن میں یونتن بھی شامل تھے،‏ جنگ میں مارے گئے۔‏ ساؤل بھی زخمی ہوئے اور پھر اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لے لی۔‏—‏1-‏سموئیل 28:‏6-‏14؛‏ 31:‏2-‏6‏۔‏

یونتن نے داؤد سے کہا:‏ ”‏تُو اِؔسرائیل کا بادشاہ ہوگا اور مَیں تجھ سے دوسرے درجہ پر ہوں گا“‏—‏1-‏سموئیل 23:‏17‏۔‏

اِس واقعے نے داؤد کو غم سے چُور کر دیا۔‏ اُن کا دل اِتنا بڑا تھا کہ وہ ساؤل کے لیے بھی ماتم کرنے لگے جنہوں نے اُن کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔‏ اُنہوں نے ساؤل اور یونتن کی موت پر ایک مرثیہ بھی لکھا۔‏ اِس مرثیے کے سب سے زیادہ دل چُھو لینے والے الفاظ وہ تھے جو داؤد نے اپنے جگری دوست کے لیے لکھے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے میرے بھائی یونتنؔ!‏ مجھے تیرا غم ہے۔‏ تُو مجھ کو بہت ہی مرغوب تھا۔‏ تیری محبت میرے لئے عجیب تھی۔‏ عورتوں کی محبت سے بھی زیادہ۔‏“‏—‏2-‏سموئیل 1:‏26‏۔‏

داؤد اُس عہد کو کبھی نہیں بھولے جو اُنہوں نے یونتن سے کِیا تھا۔‏ بہت سال بعد اُنہوں نے یونتن کے معذور بیٹے مفیبوست کو ڈھونڈا اور اُس کی دیکھ‌بھال کی۔‏ (‏2-‏سموئیل 9:‏1-‏13‏)‏ اِس سے ظاہر ہوا کہ یونتن کی وفاداری نے داؤد کو بہت کچھ سکھایا تھا۔‏ اپنے دوست کی مثال سے وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ ایک وفادار دوست کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتا۔‏ کیا آپ بھی یونتن کی مثال سے سبق سیکھیں گے؟‏ کیا آپ یونتن جیسے لوگوں کو اپنے دوست بنائیں گے؟‏ اور کیا آپ خود یونتن جیسے دوست ثابت ہوں گے؟‏ اگر ہم یہوواہ خدا پر ایمان مضبوط کرنے میں اپنے دوستوں کی مدد کریں گے،‏ یہوواہ کے وفادار رہنے کو سب سے اہم خیال کریں گے اور اپنے فائدے کا سوچنے کی بجائے وفاداری کی راہ پر چلتے رہیں گے تو ہم یونتن کی طرح اچھے دوست ثابت ہوں گے اور اُن جیسا ایمان ظاہر کریں گے۔‏

^ پیراگراف 10 بائبل میں پہلی بار یونتن کا ذکر تب ملتا ہے جب ساؤل کی حکومت ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔‏ اُس وقت یونتن ایک سپہ‌سالار تھے اِس لیے اُن کی عمر کم از کم 20 سال ضرور ہوگی۔‏ (‏گنتی 1:‏3؛‏ 1-‏سموئیل 13:‏2‏)‏ ساؤل نے 40 سال تک حکومت کی۔‏ لہٰذا ساؤل کی موت کے وقت یونتن کی عمر لگ بھگ 60 سال تھی۔‏ اُس وقت داؤد 30 سال کے تھے۔‏ (‏1-‏سموئیل 31:‏2؛‏ 2-‏سموئیل 5:‏4‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن دونوں کی عمروں میں تقریباً 30 سال کا فرق تھا۔‏